پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے قریب واہگہ بارڈر پر اتوار کو ہونے والے خودکش بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 59 ہو گئی ہے جب کہ درجنوں زخمی اب بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے نو اور ایک دوسرے خاندان کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔
پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام مقامی وقت کے مطابق پونے چھ بجے واہگہ سرحد، لاہور پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد بڑی تعداد میں لوگ جب واپس جا رہے تھے، تو وہاں ’بابِ آزادی‘ کے قریب واقع ایک مارکیٹ کے سامنے ایک زوردار دھماکہ ہوا.
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد، ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور زخمی تڑپ رہے تھے۔
موقع پر موجود ڈائرکٹر جنرل رینجرز پنجاب، میجر جنرل خان طاہر خان نے میڈیا سے گفتگو میں اِس دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کہا کہ، ’یہ خودکش حملہ تھا۔ اعضاٴ ملے ہیں، جس میں ٹانگیں ہیں۔ باقی اعضاٴکی چھان بین ہو رہی ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ واہگہ بارڈر پر سکیورٹی چیکنگ کا جدید ترین نظام نصب ہے۔ تاہم، یہ دھماکہ رینجرز کے قائم کردہ سکیورٹی حصار سے 600 میٹر کے فاصلے پر اُس وقت ہوا جب لوگ بھاری تعداد میں تقریب ختم ہونے کے بعد واپس جارہے تھے۔
ڈایریکٹر جنرل رینجرز نے کہا ہے کہ اِس مقام پر پاک بھارت تجارت کی غرض سے سینکڑوں ٹرک بھی کھڑے رہتے ہیں؛ اور وہاں مزدور بھی ہوتے ہیں۔ اُنھوں
نے کہا کہ محرم الحرام کی وجہ سے ’سکیورٹی تھریٹ‘ پورے ملک میں موجود ہے۔
پنجاب کے انسپیکٹر جنرل پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہر یہ ایک خودکش دھماکہ تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے محکمے کے مختلف اہل کار موقعے پر پہنچ کر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
بم ڈسبوزل اسکواڈ کے ایک اہل کار کا کہنا تھا کہ ’دھماکے میں کم از کم پانچ سے چھ کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا ہے‘، جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق ’دھماکے کے مقام سے بال بیئرنگ بھی ملے ہیں‘۔
اس دھماکے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں رینجرز کے اہل کار بھی شامل ہیں، جب کہ کافی تعداد عام شہریوں کی ہے، جو پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے واہگہ بارڈر گئے تھے۔
واہگہ کے قریب واقع ’گُھرکی اسپتال‘ کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل رینجرز کا کہنا ہے کہ اس خودکش دھماکے کے نتیجے میں تین رینجرز اہل کار ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
اس واقعے کی ذمہ داری جنداللہ نامی دہشت گرد گروپ نے قبول کرتے ہوئے اسے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کا ردعمل قرار دیا۔
یہ وہی دہشت گرد گروپ ہے جس نے چند روز قبل جمیعت علمائے اسلام کے رہنما، مولانا فضل الرحمٰن پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی؛ اور قبل ازیں سانحہ کوہستان اور پشاور چرچ حملے کی ذمہ داری بھی یہی گروپ قبول کر چکا ہے۔